کتاب: تبرکات - صفحہ 274
اس حوالے سے شبہات اور دلائل کا جواب پیش خدمت ہے: دلیل نمبر 1 : علامہ سخاوی نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں لکھا ہے: جُعِلَ عَلٰی قَبْرِہٖ قُبَّۃٌ، فُہُوَ مَزَارٌ وَّیُتَبَرَّکُ بِہٖ ۔ ’’سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر ایک قبہ بنایا گیا،جو ان کا مزار ہے،اس سے(لوگ) تبرک حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ (التُّحفۃ اللّطیفۃ في تاریخ المدینۃ الشّریفۃ : 1/307) قبروں پر قبے بنانا رافضیوں کی بدعت اور ایجاد ہے۔ ظاہر ہے، جو قبے بناتے ہیں ، ان کا مقصد یہی ہے کہ قبروں سے تبرک اور فیض حاصل کیا جائے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک قبروں پر قبے بنانا بالاتفاق حرام اور معصیت ہے۔ یہ اہل بدعت کی کاررائی ہے، حالانکہ خیر القرون میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ دلیل نمبر 2 : حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک واقعہ یوں نقل کرتے ہیں : رُوِيَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بنِ أَبِي عَلِيٍّ، قَالَ : کَانَ ابْنُ المُقْرِیئِ یَقُوْلُ : کُنْتُ أَنَا وَالطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو الشَّیْخِ بِالْمَدِیْنَۃِ، فَضَاقَ بِنَا الْوَقْتُ، فَوَاصَلْنَا ذٰلِکَ الْیَوْمَ، فَلَمَّا کَانَ وَقْتُ الْعشَائِ حَضَرْتُ الْقَبْرَ، وَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ الْجُوْعُ، فَقَالَ لِيَ الطَّبَرَانِيُّ : اِجْلِسْ، فَإِمَّا أَنْ یَّکُونَ الرِّزْقُ أَوِ الْمَوْتُ، فَقُمْتُ أَنَا وَأَبُو الشَّیْخِ، فَحَضَرَ الْبَابَ عَلَوِيٌّ، فَفَتَحْنَا لَہٗ، فَإِذَا مَعَہٗ غُلاَمَانِ بِقَفَّتَیْنِ، فِیْہِمَا شَيْئٌ کَثِیْرٌ، وَقَالَ :