کتاب: تبرکات - صفحہ 271
سے فتح و نصرت نصیب ہوئی۔ (تذکرۃ الاولیا از فرید الدین عطار، ص 344)
یہ جھوٹی کہانی ہے،جو گمراہ صوفیوں کا دین ہے۔ ثابت ہوا کہ بعض لوگ جو اجساد اولیا سے منسوب اشیا سے تبرک لینے کے قائل ہیں ، ان کی بات بے دلیل ہے۔
قبور اولیا سے تبرک
توسل اور تبرک کی ممنوع اور غیر مشروع صورتیں شرک وبدعت تک پہنچنے کا راستہ ہیں ۔ اولیا وصالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا ممنوع اور بدعت ہے۔ یہ منکر عمل شرک کا پُل ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر سے تبرک جائز نہیں ، تو اورکسی کی قبر سے کیسے جائز ہو سکتا ہے، جبکہ تبرکات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ خاص ہیں ۔ خیر القرون میں قبروں سے تبرک کی کوئی مثال نہیں ملتی،بلکہ یہ رافضیوں سے مستعار نظریہ ہے۔
٭ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں :
قَالَ شَیْخُنَا قَدَّسَ اللّٰہُ رُوحَہٗ : وَہٰذِہِ الْـاُمُورُ الْمُبْتَدَعَۃُ عِنْدَ الْقُبُورِ مَرَاتِبُ، أَبْعَدُہَا عَنِ الشَّرْعِ؛ أَنْ یَّسْأَلَ الْمَیِّتَ حَاجَتَہٗ، وَیَسْتَغِیثَ بِہٖ فِیہَا، کَمَا یَفْعَلُہٗ کَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ، قَالَ : وَہٰؤُلَائِ مِنْ جِنْسِ عُبَّادِ