کتاب: تبرکات - صفحہ 270
لَمْ یَکُنْ صَاحِبَ رِحْلَۃٍ، فَأَمَّا مَا یُرْوٰی أَنَّ الشَّافِعِيَّ بَعَثَہٗ إِلٰی بَغْدَادَ بِکِتَابِہٖ إِلٰی أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ؛ فَغَیْرُ صَحِیْحٍ ۔
’’ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ طلب علم کے لیے زیادہ سفر کرنے والے نہیں تھے، لہٰذا یہ جو واقعہ منقول ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے خط دے کر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف بغداد بھیجا، وہ صحیح نہیں ۔‘‘
(سِیَر أعلام النُّبَلاء : 12/587)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ کا خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں ذکر نہیں کیا۔اگر وہ بغداد آئے ہوتے، تو تاریخ بغداد میں ضرور ان کا تذکرہ ہوناچاہئے تھا۔ تاریخ بغداد کا ان کے تذکرے سے خالی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بغداد کبھی نہیں آئے، لہٰذا یہ واقعہ صحیح نہیں ۔
٭ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا واقعہ :
عمرو بن قیس ملائی،ابو عبداللہ کوفی رحمہ اللہ کے بارے میں امام عجلی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
کَانَ سُفْیَانُ یَأْتِیہِ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ یَتَبَرَّکُ بِہٖ ۔
’’امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ان کے پاس آکر سلام کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔‘‘ (الثّقات : 368)
یہ قول انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی وفات 161ھ میں ہوئی، جبکہ امام عجلی رحمہ اللہ کی ولادت 182ھ میں ہوئی، تو انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کیسے سن لیا؟درمیان میں واسطہ غائب ہے، لہٰذا سند ضعیف ہے۔
٭ سلطان محمد غزنوی کا قصہ :
بعض حضرات کہتے ہیں کہ سلطان محمد غزنوی(بن سبکتکبین ابو القاسم، م 421ھ) کو قلعہ سومنات کی جنگ میں علی بن احمد ابو الحسن خرقانی بسطامی(425ھ) کے جبے کی برکت