کتاب: تبرکات - صفحہ 269
الشّافعیۃ الکبرٰی للسُّبکي (2/36)میں آتی ہے، لیکن یہ بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔
(ا) جعفر بن محمد مالکی کی توثیق نہیں مل سکی۔
(ب) ابوبکر محمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز بن شاذان رازی غیر معتبر ہے۔
٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
لَیْسَ بِثِقَۃٍ ۔ ’’یہ ثقہ نہیں تھا۔‘‘ (تاریخ الإسلام : 6/360)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس حکم کو علامہ سبکی رحمہ اللہ نے برقرار رکھا ہے۔
(طبقات الشّافعیۃ الکبرٰی : 1/65)
٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
صَاحِبُ تِیْکَ الْحِکَایَاتِ الْمُنْکَرَۃِ، رَوٰی عَنْہُ الشَّیْخُ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ (السُّلْمِيِّ) أَوَابِدَ وَعَجَائِبَ، وَہُوَ مُتَّہَمٌ، طَعَنَ فِیْہِ الْحَاکِمُ ۔
’’ان منکر روایات کا سہرہ اسی کے سر ہے۔ شیخ ابو عبدالرحمن سلمی نے اس سے عجیب و غریب روایات نقل کی ہیں ۔یہ متہم راوی ہے،امام حاکم رحمہ اللہ نے اس پر جرح کی ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال : 3/606)
٭ ادریسی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
لَیْسَ ہُوَ فِي الرِّوَایَۃِ بِذَاکَ ۔
’’یہ روایت میں معتمد نہیں ہے۔‘‘ (لسان المیزان لابن حجر : 5/230)
الغرض یہ واقعہ تینوں سندوں کے ساتھ ’’ضعیف‘‘اوربے بنیادہے۔
٭ ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ کے حالات میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :