کتاب: تبرکات - صفحہ 268
’’یہ بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود مجروح راوی ہے،کیونکہ اس نے امام احمد رحمہ اللہ کی کتاب الزہد مفقود ہونے کے بعد بھی جعلی نسخہ سے بیان کی ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال للذّہبي : 1/511) ٭ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کَانَ یَرْوِي عَنِ ابْنِ مَالِکِ الْقُطَیْعِيِّ مُسْنَدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ بِأَسْرِہٖ، وَکَانَ سَمَاعُہٗ صَحِیْحًا؛ إِلَّا فِي أَجْزَائٍ مِّنْہُ، فَإِنَّہٗ أَلْحَقَ اسْمَہٗ فِیْہَا، وَکَذٰلِکَ فَعَلَ فِي أَجْزَائٍ مِّنْ فَوَائِدِ ابْنِ مَالِکٍ، وَکَانَ یَرْوِي عَنِ ابْنِ مَالِکٍ أَیْضًا کِتَابَ الزُّہْدِ لأَِحْمَدَ بْنِ حَنْبَلِ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ بِہٖ أَصْلٌ عَتِیْقٌ، وَإِنَّمَا کَانِتِ النُّسْخَۃُ بِخَطِّہٖ، کَتَبَہَا بِأَخِرَۃٍ، وَلَیْسَ بِمَحَلٍّ لِّلْحُجَّۃِ ۔ ’’اس نے ابن مالک قطیعی سے ساری مسند احمد کو روایت کیا ہے۔اس میں کچھ اجزا کے علاوہ اس کا سماع صحیح تھا،کیونکہ اس نے سند میں اپنا نام شامل کیا ہے۔ یہی معاملہ اس نے فوائد ابن مالک کے اجزا کے ساتھ کیا ہے۔اسی طرح یہ ابن مالک قطیعی کے حوالے سے امام احمد رحمہ اللہ کی کتاب الزہد بیان کرتا تھا، حالانکہ اس کے پاس اس کی کوئی اصل نہیں تھی۔اس کے پاس صرف اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا نسخہ تھا، جو اس نے اپنی آخری عمر میں لکھا تھا اور یہ قابلِ اعتماد نہیں ۔‘‘ (تاریخ بغداد : 7/390) لہٰذا حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا حمزہ بن حسن کو ثقہ کہنا درست نہیں ۔ ٭ اس واقعہ کی تیسری سند تاریخ ابن عساکر (5/311، 312)اور طبقات