کتاب: تبرکات - صفحہ 267
جھوٹی سند ہے۔ (ا) محمد بن حسین ابو عبدالرحمن سلمی ’’متہم بالکذب‘‘ہے۔ (ب) ابوبکر محمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز بن شاذان رازی بھی ’’متہم‘‘ ہے۔ (ج) علی بن عبدالعزیز طلحی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ ٭ اس کی دوسری سند مناقب أحمد لابن الجوزي (610، 611)میں موجود ہے، اس میں ابوعلی الحسن بن علی بن محمد ابی علی بن مذہب مجروح ہے۔ ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : إِنَّہٗ شَیْخٌ لَّیْسَ بِالْمُتْقِنِ ۔ ’’یہ شیخ مضبوط حافظے والے نہیں تھے۔‘‘ (میزان الاعتدال : 1/512) ٭ شجاع ذہلی رحمہ اللہ کہتے ہیں : کَانَ شَیْخًا عُسْرًا فِي الرِّوَایَۃِ، وَسَمِعَ الْکَثِیْرَ، وَلَمْ یَکُنْ مِّمَّنْ یُّعْتَمَدُ عَلَیْہِ فِي الرِّوَایَۃِ، کَأَنَّّہٗ خَلَطَ فِي شَيئٍ مِّنْ سَمَاعِہٖ ۔ ’’یہ قلیل الروایت شیخ تھا،البتہ اس نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے،لیکن اس کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا،گویا کہ یہ اپنے سماع میں اختلاط کا شکار تھا۔‘‘ (میزان الاعتدال للذّہبي : 1/511) ٭ حافظ ابو طاہر سلفی رحمہ اللہ کہتے ہیں : کَانَ مَعَ عُسْرِہٖ مُتَکِلَّمًا فِیْہِ، لِأَنَّہٗ حَدَّثَ بِکِتَابِ الزُّہْدِ لِأَحْمَدَ بَعْدَ مَا عُدِمَ أَصْلُہٗ مِنْ غَیْرِ أَصْلِہٖ ۔