کتاب: تبرکات - صفحہ 264
’’اسی طرح جو علما و عظما کے سامنے زمین بوسی کا عمل کیا جاتا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ اسے کرنے والا اور اس پر راضی ہونے والا،دونوں گناہ گار ہیں ، یہ بت پرستی کے مشابہ ہے۔کیا ایسا کرنے والے کو کافر کہا جائے گا؟ [اس میں تفصیل ہے]۔ اگر وہ عبادت اور تعظیم کی بنا پر ایسا کر رہا ہے، تو یہ عمل کفر ہے اور اگر بطور ِتحیہ ہے تو حرام نہیں ،لیکن ایسا کرنے والا گناہ گار، بلکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو گا۔‘‘
(ردّ المحتار لابن عابدین : 6/383، تبیین الحقائق للزّیلعي : 6/25، مَجمع الأنہر لشیخي زادہ : 2/542، البنایۃ للعیني : 12/198)
٭ ایک کتاب میں لکھا ہے :
وَتَقْبِیلُ الْـأَرْضِ بَیْنَ یَدَيِ الْعُلَمَائِ وَالزُّہَّادِ فِعْلُ الْجُہَّالِ، وَالْفَاعِلُ وَالرَّاضِي آثِمَانِ ۔
’’علما و زہاد کے سامنے زمین بوسی جاہلوں کا فعل ہے اور ایسا کرنے والا اور اس پر راضی ہونے والا،دونوں گناہ گار ہیں ۔‘‘(فتاویٰ عالمگیری : 5/369)
٭ علامہ عینی اس کی وجہ حرمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لِأَنَّہٗ یُشْبِہُ عِبَادَۃَ الْوَثَنِ ۔
’’کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔‘‘ (البِنایۃ في شرح الہِدایۃ : 12/198)
الحاصل :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کے دور میں قدم بوسی کا وجود نہیں ملتا۔ یوں قدم بوسی اور زمین بوسی ناجائز اعمال وافعال ہیں ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭