کتاب: تبرکات - صفحہ 263
جس جگہ سجدے کا حکم دیا گیا تھا، وہاں انبیا کی قبریں ہیں ، بالکل بے دلیل مفروضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ آپ اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں ۔ اولیا کی قبروں والی بات کسی مسلمان مفسر نے نہیں کی۔مفسرین نے اس سجدہ کو سجدۂ شکر قرار دیا ہے۔
٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ)فرماتے ہیں :
أَيْ شُکْرًا لِّلّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی مَا أَنْعَمَ بِہٖ عَلَیْہِمْ مِّنَ الْفَتْحِ وَالنَّصْرِ، وَرَدَّ بَلَدَہُمْ إِلَیْہِمْ، وَانْقَاذَہُمْ مِّنَ التِّیہِ وَالضَّلَالِ ۔
’’ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے کا حکم دیا گیا کہ اللہ نے انہیں فتح ونصرت عطا فرمائی، انہیں ان کا علاقہ واپس دے دیا اور پستی وگمراہی سے نجات دی۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 1/247، طبعۃ المہدي)
اہل علم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو بوسہ دینا اور اسے چھونا مکروہ اور بدعت خیال کیا ہے۔
زمین بوسی :
علما وعظما کے سامنے زمین کو بوسہ دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
احناف کی معتبر کتب میں لکھا ہے :
کَذَا مَا یَفْعَلُونَہٗ مِنْ تَقْبِیلِ الْـأَرْضِ بَیْنَ یَدَيِ الْعُلَمَائِ وَالْعُظَمَائِ فَحَرَامٌ، وَالْفَاعِلُ وَالرَّاضِي بِہٖ آثِمَانِ، لِأَنَّہٗ یُشْبِہُ عِبَادَۃَ الْوَثَنِ، وَہَلْ یُکَفَّرَانِ؟ عَلٰی وَجْہِ الْعِبَادَۃِ وَالتَّعْظِیمِ کُفْرٌ، وَإِنْ عَلٰی وَجْہِ التَّحِیَّۃِ لَا، وَصَارَ آثِمًا مُّرْتَکِبًا لِّلْکَبِیرَۃِ ۔