کتاب: تبرکات - صفحہ 262
٭ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا، تو فرمایا : لَوْلَا أَنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ، مَا قَبَّلْتُکَ ۔ ’’اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھتا، تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري : 1597، صحیح مسلم : 1270) معلوم ہواکہ جس چیز کا بوسہ شریعت سے ثابت نہ ہو، اسے بوسہ دینا ناجائز اور غیر مشروع ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قَالَ شَیْخُنَا فِي شَرْحِ التِرْمِذِيِّ : فِیہِ کَرَاہِیَۃُ تَقْبِیلِ مَا لَمْ یَرَہُ الشَّرْعُ بِتَقْبِیلِہٖ ۔ ’’ہمارے شیخ(حافظ عراقی رحمہ اللہ )جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو بوسہ دینے کی تعلیم شریعت نے نہ دی ہو، اسے بوسہ دینا مکروہ ہے۔‘‘ (فتح الباري : 3/463) استدلا ل کے سقم کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو : ’’تبرکات کا چومنا جائز ہے۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے : ﴿وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ﴾ یعنی اے بنی اسرائیل! تم بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو : ہمارے گناہ معاف ہوں ۔ اس آیت سے پتہ لگا کہ بیت المقدس، جو انبیائے کرام کی آرامگاہ ہے، اس کی تعظیم اس طرح کرائی گئی کہ وہاں بنی اسرائیل کو سجدہ کرتے ہوئے جانے کا حکم دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ متبرک مقامات پر توبہ جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘ (جاء الحق : 1/368)