کتاب: تبرکات - صفحہ 261
استدلال درست نہیں :
’’اولیاء اللہ کے ہاتھ پاؤں چومنا اور اس طرح ان کے بعد ان کے تبرکات بال و لباس وغیرہ کو بوسہ دینا،ان کی تعظیم کرنا مستحب ہے۔احادیث اور عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے،لیکن بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘
(جاء الحق از نعیمی : 1/368)
اولیاء اللہ کے ہاتھ چومنا جائز ہے، لیکن اسے بھی عبادت نہیں بنانا چاہیے۔ رہا پاؤں چومنا، تو یہ ثابت ہی نہیں ، چہ جائیکہ مستحب ہو! جہاں تک تبرکات کی بات ہے، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین جیسے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی چھوڑی ہوئی چیزوں کو کسی صحابی یا تابعی نے تبرک نہیں بنایا۔
اسی طرح یہ عبارت بھی غلو پر مبنی ہے :
’’ان احادیث و محدثین وعلماء کی عبارات سے ثابت ہوا کہ بزرگان کے ہاتھ پاؤں اور ان کے لباس،نعلین،بال غرضیکہ سارے تبرکات،اسی طرح کعبہ معظمہ، قرآنِ مجید،کتب ِ احادیث کے اوراق کا چومنا جائز اور باعث برکت ہے، بلکہ بزرگانِ دین کے بال و لباس و جمیع تبرکات کی تعظیم کرنا۔‘‘
(جاء الحق : 1/399)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارکہ کے علاوہ کسی بھی ولی و صالح انسان کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ، تو بوسہ دینا کیسے جائز ہوا؟ کعبہ معظمہ، قرآنِ مجید اور کتب ِاحادیث کے اوراق چومنے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ،یہ غیرمشروع عمل ہے۔اگر یہ کوئی نیک کام ہوتا، تو صحابہ و تابعین جیسے اسلاف ِامت اس سے کیونکر غافل رہتے؟