کتاب: تبرکات - صفحہ 254
اس کی سند خراب تھی۔‘‘ (المستدرک علی الصّحیحین : 1/15) اس کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی توجیہ درست نہیں ۔ معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن سلمہ کی جس حدیث کو محدثین ’’منکر‘‘قرار دیں گے، وہ ’’ضعیف‘‘ ہو گی اور باقی ’’حسن‘‘ ہوں گی۔ روایت نمبر2 زارع بن عامر رضی اللہ عنہ ،جو وفدِ عبدقیس میں شامل تھے،ان کی طرف منسوب ہے : لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ، فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَّوَاحِلِنَا، فَنَتَقَبَّلُ یَدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَہٗ ۔ ’’ہم مدینہ منورہ پہنچے، تو جلدی میں اپنے کجاؤوں سے نکلے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے۔‘‘ (سنن أبي داوٗد : 5225، القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الأعرابي : 41، الأدب المفرد للبخاري : 975) سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔ امِ ابان بنت وازع کی کسی محدث نے توثیق نہیں کی۔ لہٰذا حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا یہ کہنا درست نہیں : رَوَتْ ۔۔۔ حَدِیثًا حَسَنًا، سَاقَتْہُ بِتَمَامِہٖ وَطُولِہٖ سِیَاقَۃً حَسَنَۃً ۔ ’’ام ابان نے ۔۔۔ ایک حسن حدیث روایت کی ہے۔ اس نے اس حدیث کو مکمل اور طول کے ساتھ اچھا بیان کیا ہے۔‘‘ (الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 4/80) ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امِ ابان کو ’’مجہولات‘‘میں شمار کیا ہے۔ (میزان الاعتدال : 4/611)