کتاب: تبرکات - صفحہ 253
٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا یُتَابَعُ فِي حَدِیثِہٖ ۔
’’(ثقات کی طرف سے) ان کی روایات کی متابعت نہیں کی گئی۔‘‘
(التّاریخ الکبیر : 5/99)
٭ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’منکر‘‘ کہا ہے۔
(السّنن الکبرٰی : 3527)
٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ)فرماتے ہیں :
’’اس حدیث میں اشکال ہے۔ عبد اللہ بن سلمہ کے حافظے میں کچھ خرابی تھی، محدثین نے ان پر جرح بھی کی ہے۔ممکن ہے کہ انہیں نو آیات اور دس کلمات میں اشتباہ ہو گیا ہو، کیونکہ دَس کلمات تو تورات میں وصیت کی صورت میں ہیں ،ان کا فرعون کے خلاف دلیل بننے سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 5/124)
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صَدُوقٌ، تَغَیَّرَ حِفْظُہٗ ۔’’سچے تھے، لیکن حافظے میں خرابی ہو گئی تھی۔‘‘
(تقریب التّہذیب : 3364)
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’میں نے امام ابو عبد اللہ محمد بن یعقوب الحافظ کو سنا، ان سے محمد بن عبید اللہ سوال کر رہے تھے کہ امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ نے سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کو بالکل ہی کیوں چھوڑ دیا تھا؟اس پر انہوں نے فرمایا : کیونکہ