کتاب: تبرکات - صفحہ 252
اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ ۔
’’یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ، لَا نَعْرِفُ لَہٗ عِلَّۃً بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوہِ ۔
’’یہ حدیث صحیح ہے۔ ہمیں اس میں کسی بھی قسم کی کوئی علت معلوم نہیں ہوئی۔‘‘
(المستدرک علی الصّحیحین : 1/15)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
یہ حدیث ’’منکر‘‘ہے۔ عبد اللہ بن سلمہ اگرچہ ’’حسن الحدیث‘‘ہیں ، لیکن آخری عمر میں ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا، ان کے شاگرد عمرو بن مرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَمَۃَ قَدْ کَبِرَ، وَکَانَ یُحَدِّثُنَا، فَنَعْرِفُ وَنُنْکِرُ ۔
’’عبد اللہ بن سلمہ بوڑھے ہو گئے تھے۔ وہ ہمیں حدیث بیان کرتے، تو ہمیں ان سے کچھ معروف اور کچھ منکر حدیثیں ملتیں ۔‘‘
(مسند عليّ بن الجعد : 66، العِلَل للإمام أحمد بروایۃ عبد اللّٰہ : 1824، الجامع لأخلاق الرّاوي وآداب السّامع للخطیب : 1920، واللّفظ لہٗ)
٭ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تَعْرِفُ وَتُنْکِرُ ۔ ’’یہ معروف اور منکر روایات بیان کرتے ہیں ۔‘‘
(الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : 5/74)