کتاب: تبرکات - صفحہ 25
طَرِیقٍ صَحِیحٍ مَّعْرُوفٍ أَنَّ مُتَبَرِّکًا تَبَرَّکَ بِہٖ عَلٰی أَحَدِ تِلْکَ الْوُجُوہِ أَوْ نَحْوِہَا، بَلِ اقْتَصَرُوا فِیہِمْ عَلَی الِاقْتِدَائِ بِالْـأَفْعَالِ وَالْـأَقْوَالِ وَالسِّیَرِ الَّتِي اتَّبَعُوا فِیہَا النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَہُوَ إِذًا إِجْمَاعٌ مِّنْہُمْ عَلٰی تَرْکِ تِلْکَ الْـأَشْیَائِ ۔ ’’صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بھی تھے۔ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا۔نہ سیدنا عمر سے کوئی اس طرح کا تبرک لیا گیا۔ وہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی صحابی کے بارے میں باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی صحابی یا تابعی نے ان کے ساتھ تبرک والا ایسا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ انہوں (دیگر صحابہ و تابعین) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اورطریقہ کارمیں پہلوں کی پیروی پر اکتفا کیا، لہٰذا یہ ان کی طرف سے تبرک بالآثار کو ترک کرنے پر اجماع ہے۔‘‘ (الاعتصام : 2/8۔9) ٭ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ)لکھتے ہیں : کَذٰلِکَ التَّبَرُّکُ بِالْـآثَارِ؛ فَإِنَّمَا کَانَ یَفْعَلُہٗ الصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَّعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ یَکُونُوا یَفْعَلُونَہٗ مَعَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ، وَلَا یَفْعَلُہٗ التَّابِعُونَ مَعَ الصَّحَابَۃِ مَعَ عُلُوِّ قَدَرِھِمْ ۔