کتاب: تبرکات - صفحہ 246
ہوتے، آپ کو سلام کرتے اور آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتے۔‘‘ (تقدمۃ الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : 291) اہل علم و فضل،والدین،نیک بزرگوں اور اساتذئہ کرام کی عزت و تکریم کرتے ہوئے ان کا ہاتھ چومنا شرعاً مشروع اور جائز ہے،بشرطیکہ ان میں عجب و تکبر پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ایسی صورت میں اجتناب ضروری ہو جائے گا۔ حصولِ تبرک کے لیے دست بوسی : اگر کوئی شخص اولیا ء اللہ اور صالحین کے ہاتھ حصولِ تبرک کے لیے چومتا ہے، تو یہ اقدام غیر شرعی، ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح بدعت اور منکر فعل ہے۔اس کے بدعت ہونے کی دو وجہیں ہیں ؛پہلی یہ کہ تبرک آثارِ نبویہ کے ساتھ خاص ہے،اس تعظیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔دوسری یہ کہ خیر القرون میں کسی ثقہ مسلمان سے کسی کے ہاتھ تبرکاً چومنا ثابت نہیں ۔سلف صالحین کی پیروی میں دین اپنانا چاہیے،کیونکہ وہ شریعت کے تقاضوں سے بہ خوبی واقف تھے اور انہیں پورا کرنے والے تھے۔ دست بوسی کے بارے میں چند روایات کی تحقیق : ہاتھ چومنے کے متعلق چند روایات کی تحقیق پیش خدمت ہے: 1. حدیث ابن عمر : (سنن أبي داوٗد : 2647) اس کی سند سخت ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس میں یزید بن ابی زیاد جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ اور’’ سییء الحفظ‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’مدلس‘‘ بھی ہے۔ 2. حدیث أسامۃ بن شریک : (المُعجم الصّغیر للطّبراني : 2041، الرُّخصۃ في تقبیل الید لابن المقري : 2، القُبل والمُعانَقۃ والمُصَافَحۃ لابن الأعرابي : 3)