کتاب: تبرکات - صفحہ 245
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح غریب‘‘ کہا ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (6953) نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ فائدہ مہمہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی صحابی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ کو چومنا ثابت نہیں ، اس بارے میں وارد شدہ ساری کی ساری روایات ’’ضعیف‘‘ ہیں ۔ البتہ سلف صالحین سے اہل علم وفضل کے ہاتھ چومنا ثابت ہے۔ ٭ مشہور تبع تابعی، عاصم بن بہدلہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : مَا قَدِمْتُ عَلٰی أَبِي وَائِلٍ قَطُّ مِنْ سَفَرٍ؛ إِلَّا قَبَّلَ کَفِّي ۔ ’’میں جب بھی سفر سے واپس ابو وائل (شقیق بن سلمہ تابعی رحمہ اللہ ) کے پاس پہنچا، تو انہوں نے میرا ہاتھ چوما۔‘‘ (القُبل والمُعانقۃ والمُصافحۃ لابن الأعرابي : 5، وسندہٗ حسنٌ) ٭ حسین بن علی بن ولید جعفی رحمہ اللہ کہتے ہیں : رُبَّمَا فَعَلَہٗ لِي سُفْیَانُ، یَعْنِي ابْنَ عُیَیْنَۃَ، یَعْنِي یُقَبِّلُ یَدَہٗ ۔ ’’بسا اوقات امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ میرا ہاتھ چوما کرتے تھے۔‘‘ (القُبل والمُعانَقۃ والمُصافحۃ لابن الأعرابي : 7، وسندہٗ صحیحٌ) ٭ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ، محدث ابو مسہر رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں : إِذَا خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ؛ اِصْطَفَّ النَّاسُ لَہٗ یُمْنَۃً وَّیُسْرَۃً، یُسَلِّمُوْنَ عَلَیْہِ، وَیُقَبِّلُوْنَ یَدَہٗ ۔ ’’جب آپ رحمہ اللہ مسجد کی طرف نکلتے، تو لوگ دائیں بائیں قطار بنا کر کھڑے