کتاب: تبرکات - صفحہ 242
انسانوں کو ڈھیروں برکات سے نوازتے ہیں ،مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان سے تبرک حاصل کیا جائے۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کے اعمالِ صالحہ کی بہ دولت اللہ تعالیٰ نے امت کو بھلائیاں عطا فرمائی ہیں ۔ان کی دعاؤں اور اخلاص کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح ونصرت نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’ہَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ‘ ۔
’’تمہیں نصرت و رزق تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے عطا کیا جاتا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 2596)
٭ ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
’ابْغُونِي ضُعَفَائَکُمْ، فَإِنَّکُمْ إِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِکُمْ‘ ۔
’’مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔بلاشبہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور انہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 5/198، سنن أبي داوٗد : 2594، سنن النّسائي : 3181، سنن التّرمذي : 1702، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘،امام ابن حبان رحمہ اللہ (4767)نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمہ اللہ (104/2، 105)نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔
ان دونوں حدیثوں کی وضاحت ایک اور حدیث میں یوں آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’إِنَّمَا یَنْصُرُ اللّٰہُ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃَ بِضَعِیفِہَا، بِدَعْوَتِہِمْ وَصَلَاتِہِمْ وَإِخْلَاصِہِمْ‘ ۔