کتاب: تبرکات - صفحہ 240
ہیں ، سنتے ہیں اور جانتے ہیں ۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ صلحا واولیا کی قبروں کو پختہ کرنا، ان کی تزئین وزیبائش کرنا، ان پر قبے بنانا،ان کی طرف سفر کرنا،ان کی قبروں پر عرس و میلے لگانا، ان کی قبروں کی مجاوری اختیار کرنا،وہاں سبیلیں لگانا، قبروں پر چادریں اور پھول چڑھانا،ان پر چراغ جلانا، قبروں کا طواف،ان پر اعتکاف بیٹھنا،قبروں کو بوسے دینا،مَس کرنا،قبر کے سامنے باادب اور باوضو کھڑنے ہونے کا اہتمام کرنا،قبروں پر نماز اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا،دیگیں چڑھانا اور قبروں کو تریاقِ مجرب سمجھنا جائز ہے۔ان کا خیال ہے کہ یہ اولیاء اللہ کی تعظیم وتکریم ہے، جو یہ اعتقاد نہ رکھے،وہ ایسا ویسا ہے۔ ان تمام چیزوں کوروا رکھنے کے لیے ناجائز تبرک اور ناجائز توسل کا چور دروازہ کھولا گیا ہے۔ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی کے ساتھ خاص ہے، یہ وہ تعظیم ہے جس میں آپ کا کوئی شریک و سہیم نہیں ۔اس حوالے سے مدلل تحریر پیش کی جا چکی ہے۔اس کے برعکس بعض لوگ اولیا وصالحین سے بھی تبرک کے قائل ہیں ، ان کے دلائل ملاحظہ ہوں ؛ دلیل نمبر 1 : ٭ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیَقُولُونَ : فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ، ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ : ہَلْ فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟