کتاب: تبرکات - صفحہ 24
مبارک ہو،نعلین شریفین ہوں ،اس سے تبرک لینا مشروع اور جائز ہے۔ان آثار کی تعظیم و تکریم درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِبابرکات سے محبت کا اظہار ہے۔اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار کی مجال نہیں ۔ آثار سے تبرک، خاصۂ نبوی ہے : خوب یاد رہے کہ آثار سے تبرک ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔کسی اور شخصیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی پر قیاس کر کے اس کے آثار سے تبرک کا جواز پیش کرنا کسی بھی صورت درست نہیں ،کیونکہ مخلوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی پر کسی ولی یا صالح شخص کو قیاس کر کے اس کے آثار سے تبرک لینا جائز ہوتا،تو سلف صالحین،یعنی صحابہ کرام،تابعین عظام اور ائمہ دین ضرور ایسا کرتے، کیونکہ وہ قرآن و حدیث کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے تھے اور قرآن و حدیث کے مفاہیم و معانی اور مطالب کو سب سے بڑھ کر جاننے والے تھے۔ ٭ علامہ شاطبی رحمہ اللہ (780ھ) فرماتے ہیں : إِنَّ الصَّحَابَۃَ بَعْدَ مَوْتِہٖ لَمْ یَقَعْ مِنْ أَحَدٍ مِّنْہُمْ شَيْئٌ مِّنْ ذٰلِکَ بِالنِّسْبَۃِ إِلٰی مَنْ خَلْفَہٗ، إِذْ لَمْ یَتْرُکِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَہٗ فِي الْـأُمَّۃِ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَہُوَ کَانَ خَلِیفَتَہٗ، وَلَمْ یُفْعَلْ بِہٖ شَيْئٌ مِّنْ ذٰلِکَ، وَلَا عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَہُوَ کَانَ أَفْضَلَ الْـأُمَّۃِ بَعْدَہٗ، ثُمَّ کَذٰلِکَ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِيٌّ، ثُمَّ سَائِرُ الصَّحَابَۃِ الَّذِینَ لَا أَحَدٌ أَفْضَلُ مِنْہُمْ فِي الْـأُمَّۃِ، ثُمَّ لَمْ یَثْبُتْ لِوَاحِدٍ مِّنْہُمْ مِّنْ