کتاب: تبرکات - صفحہ 238
وہ ہاتھ ہیں ، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کو چھوا ہے۔ یہ سارے کام ایک مسلمان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت میں افراط کی وجہ سے صادر ہو جاتے ہیں ،کیونکہ اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے اپنی جان، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبت کرے۔‘‘ (مُعجم الشُّیوخ الکبیر : 1/73) حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے عیاں ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اور خیر القرون میں کوئی فرد وبشر ایسا نہیں گزرا،جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مس کرنے، بوسہ دینے اور تبرک حاصل کرنے کو جائز سمجھتا ہو۔ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام چونکہ تبرکات سے مستفید ہوتے رہے،اب ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے ایسا ایسا کرلیں ۔ جس دلیل کی بنیاد پر انہوں نے یہ کہا،وہ ثابت نہیں ، جیسا کہ ہم ابھی ذکر کرنے والے ہیں ۔ جب وہ دلیل ثابت نہیں ، تو مؤقف بے دلیل ہوا، بے دلیل مؤقف کا کیا اعتبار؟ دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ اس میں اصل تبرک محبت ِرسول ہے، اس ضمن میں ہم کہتے ہیں کہ محبت رسول کا طریقہ کون متعین کرے گا؟ کیا ہر ایک محبت رسول کے دعویٰ میں جو اس کے دل میں آئے گا، کرے گا، یااس کا کوئی سلف ہو گایا پھر کوئی دلیل راہنما ہو گی؟محبت ِرسول کا ہر گز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو بوسہ دینا شروع کر دیں ،اس کے ساتھ جسم ملتے رہیں ۔ محبت رسول کے اظہار کے لئے معیار صحابہ ہیں ، وہ ایسا نہیں کرتے تھے، لہٰذا ہم بھی ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ یہ دین نہیں ہے۔نہ ہی محبت رسول کا تقاضا ہے۔ رہا حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے جو ثابت بنانی والی روایت ذکر کی ہے، تو وہ حدیث محمّد بن عبد اللّٰہ الأنصاري (63)،شعب الإیمان للبیہقي (1492)،حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني (2/327)اور تاریخ ابن عساکر (9/359)میں موجود ہے۔