کتاب: تبرکات - صفحہ 237
مِنَ الْمُسْلِمِ؛ إِلاَّ فَرْطُ حُبِّہٖ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذْ ہُوَ مَأْمُورٌ بِأَنْ یُّحِبَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ أَشَدَّ مِنْ حُبِّہٖ لِنَفْسِہٖ، وَوَلَدِہٖ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ۔
’’سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو مَس کرنا ناپسند کرتے تھے۔میں (حافظ ذہبی رحمہ اللہ ) یہ کہتا ہوں کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نا پسند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے بے ادبی خیال کرتے تھے،لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے قبرِ نبی کو مَس کرنے اور بوسہ دینے کے متعلق دریافت کیا گیا، تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔اس روایت کو ان سے ان کے بیٹے عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
اگر کوئی کہے:صحابہ نے کیوں ایسا نہیں کیا؟ تو اسے کہا جائے گا : وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے رہے۔ انہوں نے آپ کے مبارک ہاتھوں کو بوسے دئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بچے پانی پر جھگڑے کے قریب جا پہنچتے۔انہوں نے حجِ اکبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت بالوں کو تقسیم کیا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلغم پھینکتے، توصحابہ کرام اسے اپنے ہاتھوں پر مَل کر اپنے چہروں کے اوپر مَل لیتے،لیکن ہمارا اتنا نصیب کہاں ؟اب ہمارے مقدر میں آئی،تو صرف قبر کی مٹی کہ اس سے جسم کو چمٹا لیں ، اس کی تکریم کریں ، اُسے چھوئیں اور بوسہ دیں ۔
کیا آپ ثابت بنانی رحمہ اللہ کے عمل کو نہیں دیکھتے کہ وہ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے،پھر انہیں اپنے چہرے پر پھیر لیتے اور ساتھ کہتے:یہ