کتاب: تبرکات - صفحہ 229
٭ حافظ سخاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
مِمَّنْ ذَھَبَ إِلٰی ھٰذَا التَّفْصِیلِ الشَّافِعِيُّ وَابْنُ مَعِینٍ وَابْنُ الْمَدِینِيِّ ۔
’’جو ائمہ اس مؤقف کے حامل ہیں ، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام علی بن مدینی رحمہم اللہ کے نام شامل ہیں ۔‘‘
(فتح المُغیث : 1/182)
٭ حافظ علائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اَلصَّحِیحُ الَّذِي عَلَیْہِ جُمْھُورُ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ وَالْفِقْہِ وَالْـاُصُولِ ۔
’’جمہور ائمہ حدیث وفقہ اور ائمہ اصول کا مذہب ہی درست ہے۔‘‘
(جامع التّحصیل، ص 111)
٭ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قَالُوا : لَا یُقْبَلُ تَدْلِیسُ الْـأَعْمَشِ ۔
’’محدثین کہتے ہیں کہ اعمش کی تدلیس قبول نہیں ۔‘‘ (التّمھید : 1/30)
٭ علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں :
إِنَّ الْـأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، وَعَنْعَنَۃُ الْمُدَلِّسِ لَا تُعْتَبَرُ إلَّا إِذَا عُلِمَ سَمَاعُہٗ ۔
’’اعمش ’’مدلس‘‘ ہیں اور ’’مدلس‘‘ کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے، جب سماع کی تصریح مل جائے۔‘‘
(عمدۃ القاري، تحت الحدیث : 219)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (البدایۃ والنھایۃ : 5/167) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری : 2/495) کا اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینا علمی تسامح ہے۔
٭ امام بیہقی رحمہ اللہ (۴۵۸ھ) ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :