کتاب: تبرکات - صفحہ 227
٭ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔ (مَجمع الزّوائد : 2/25، 6/694) فائدہ : اس کی تیسری سند ابو الحسین یحییٰ بن حسن بن جعفر بن عبیداللہ حسینی کی کتاب أخبار المدینۃ میں آتی ہے۔(شِفاء السّقام للسُّبکي، ص 343) اس کی سند ضعیف ہے۔ 1. عمر بن خالد نامعلوم ہے۔ 2. مطلب بن عبداللہ کا عنعنہ ہے۔ 3. مطلب کا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔ دورِ فاروقی میں ایک شخص کا قبر نبی سے تبرک : عَنْ مَّالِکِنِ الدَّارِ، قَالَ : وَکَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَی الطَّعَامِ، قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اسْتَسْقِ لِـأُمَّتِکَ، فَإِنَّہُمْ قَدْ ہَلَکُوا، فَاُتِيَ الرَّجُلُ فِي الْمَنَامِ، فَقِیلَ لَہٗ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْہُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُ أَنَّکُمْ مُسْتَقِیمُونَ، وَقُلْ لَہٗ : عَلَیْکَ الْکَیْسُ، عَلَیْکَ الْکَیْسُ، فَأَتٰی عُمَرَ فَأَخْبَرَہٗ، فَبَکٰی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ! لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْہُ ۔ ’’مالک الدار غلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خزانچی تھے، ان سے روایت