کتاب: تبرکات - صفحہ 224
’’یہ روایت غریب اور منکر ہے۔اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع بھی ہے۔‘‘ (الصّارم المُنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314) تنبیہ : ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : إِسْنَادُہٗ جَیِّدٌ، مَا فِیہِ ضَعِیفٌ، لٰکِنْ إِبْرَاھِیمُ ھٰذَا مَجْھُولٌ ۔ ’’اس کی سند جید ہے۔اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں ، البتہ یہ ابراہیم نامی راوی مجہول ہے۔‘‘ (تاریخ الإسلام : 5/373) یہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا علمی تسامح ہے۔جس روایت کی سند میں دو راوی ’’مجہول‘‘ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ’’انقطاع‘‘بھی ہو، وہ جید کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر خود انہوں نے اپنی دوسری کتاب (سِیَر أعلام النُّبَلاء : 1/358)میں اس کی سند کو کمزور اور اس روایت کو ’’منکر‘‘بھی قرار دے رکھا ہے، جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں ۔ اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کی بات درست ہے کہ یہ قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ یہ ان ’’مجہول‘‘ راویوں میں سے کسی کی کارروائی ہے۔ واللہ اعلم! سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور قبر نبی سے تبرک : ٭ داؤد بن ابی صالح حجازی کا بیان ہے : أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا، فَوَجَدَ رَجُلًا وَّاضِعًا وَجْہَہٗ عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ، فَإِذَا ہُوَ أَبُو اَیُّوبَ، فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ