کتاب: تبرکات - صفحہ 223
ھٰذَا شَیْخٌ لَّمْ یُعْرَفْ بِثِقَۃٍ وَّأَمَانَۃٍ، وَلَا ضَبْطٍ وَّعَدَالَۃٍ، بَلْ ھُوَ مَجْھُولٌ غَیْرُ مَعْرُوفٍ بِالنَّقْلِ، وَلَا مَشْھُورٍ بِالرِّوَایَۃِ، وَلَمْ یَرْوِ عَنْہُ غَیْرُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَیْضِ، رَوٰی عَنْہُ ھٰذَا الْـأَثَرَ الْمُنْکَرَ ۔ ’’یہ ایسا راوی ہے، جس کی امانت ودیانت اور ضبط وعدالت معلوم نہیں ۔ یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیر معروف ہے۔ یہ روایت میں بھی مشہور نہیں ۔ اس سے محمدبن فیض کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اس سے روایت کیا ہے۔‘‘ (الصّارم المُنکي، ص 314) 2. سلیمان بن بلال بن ابی درداء کے متعلق ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بَلْ ھُوَ مَجْھُولُ الْحَالِ، وَلَمْ یُوَثِّقْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْعُلَمَائِ، فِیمَا عَلِمْنَاہُ ۔ ’’یہ مجہول الحال ہے۔ ہمارے مطابق کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔‘‘ (الصّارم المُنکي، ص 314) 3. سلیمان بن بلال کا سیّدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں ۔ ٭ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یُعْرَفُ لَہٗ سَمَاعٌ مِّنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ۔ ’’اس کا سیّدہ ام دردا رضی اللہ عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘ (الصّارم المُنکي، ص 314) ٭ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں : وَھُوَ أَثَرٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ، وَإِسْنَادُہٗ مَجْھُولٌ، وَفِیہِ انْقِطَاعٌ ۔