کتاب: تبرکات - صفحہ 222
روایت من گھڑت ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ھِيَ قِصَّۃٌ بَیِّنَۃُ الْوَضْعِ ۔ ’’یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنتل ہے۔‘‘ (لسان المیزان : 1/108) ٭ علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ھٰذَا الْـأَثَرُ الْمَذْکُورُ عَنْ بِلَالٍ؛ لَیْسَ بِصَحِیحٍ ۔ ’’سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے منسوب مذکورہ روایت ثابت نہیں ۔‘‘ (الصّارم المُنکي، ص 314) ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إِسْنَادُہ لَیِّنٌ، وَھُوَ مُنْکَرٌ ۔ ’’اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔‘‘ (سِیَر أعلام النُّبَلاء : 1/358) ٭ ابن عراق کنانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ھِيَ قِصَّۃٌ بَیِّنَۃُ الْوَضْعِ ۔ ’’یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہوا ہے۔‘‘ (تنزیہ الشّریعۃ : 59) 1. ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے۔ (تاریخ الإسلام : 67/17) ٭ نیز فرماتے ہیں : فِیہِ جَھَالَۃٌ ۔ ’’یہ نامعلوم راوی ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال : 1/64، ت : 205) ٭ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں :