کتاب: تبرکات - صفحہ 221
رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا رُئِيَ یَوْمٌ أَکْثَرَ بَاکِیًا وَّلَا بَاکِیَۃً بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔
’’سیّدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے خواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:اے بلال!یہ کیا بے رُخی ہے؟کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کرو؟اس پر سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے۔انہوں نے اپنی سواری کا رخ مدینہ منورہ کی طرف کرلیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر پہنچے اور اس کے پاس رونا شروع کر دیا۔ اپنا چہرہ اس پر ملنے لگے۔سیّدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ادھر آئے، تو سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے انہیں سینے سے لگایا اور ان کو بوسہ دیا۔ان دونوں نے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا:ہم آپ کی وہ اذان سننا چاہتے ہیں ،جو آپ مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ہاں کر دی۔مسجد کی چھت پر چڑھے اور اپنی اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں دورِ نبوی میں کھڑے ہوتے تھے۔ جب انہوں نے اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ کہا، تو مدینہ(رونے کی آواز سے)گونج اٹھا۔پھر جب انہوں نے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہا، تو آوازیں اور زیادہ ہو گئیں ۔ جب وہ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ پر پہنچے، تودوشیزائیں اپنے پردوں سے نکل آئیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نے مدینہ میں مردوں اور عورتوں کے رونے والا اس سے بڑا دن کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
(أخبار وحکایات للغساني : 75، تاریخ ابن عساکر : 7/137)