کتاب: تبرکات - صفحہ 216
اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے، تو اس سے توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں ۔بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔
٭ شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی فرماتے ہیں :
لَوْ صَحَّ ذٰلِکَ لَکَانَ حُجَّۃً وَّدَلِیلًا عَلٰی أَنَّ الْقَوْمَ لَمْ یَکُونُوا یُقْسِمُونَ عَلَی اللّٰہِ بِمَخْلُوقٍ، وَّلَا یَتَوَسَّلُونَ فِي دُعَائِہِمْ بِمَیِّتٍ، وَلَا یَسْاَلُونَ اللّٰہَ بِہٖ، وَإِنَّمَا فَتَحُوا عَلَی الْقَبْرِ لِتَنْزِلَ الرَّحْمَۃُ عَلَیْہِ، وَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ دُعَاء ٌ یُّقْسِمُونَ بِہٖ عَلَیْہِ، فَأَیْنَ ہٰذَا مِنْ ہٰذَا ۔
’’اگر یہ روایت صحیح ہو، توبھی اس بات پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرام نہ تو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دیتے تھے،نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالیٰ سے اس کے وسیلے سے مانگتے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو۔انہوں نے وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی،جس میں وہ کوئی وسیلہ پکڑتے۔لہٰذا اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟‘‘
(الردّ علی البکري، ص : 74)
یعنی یہ روایت فوت شدگان سے توسل لینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
ایک الزامی جواب :
اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :