کتاب: تبرکات - صفحہ 215
وَمِنْ حِینَئِذٍ دَخَلَتِ الْحُجْرَۃُ النَّبَوِیَّۃُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ إِنَّہٗ بُنِيَ حَوْلَ حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ الَّتِي فِیہَا الْقَبْرُ؛ جِدَارٌ عَالٍ، وَبَعْدَ ذٰلِکَ جُعِلَتِ الْکَوَّۃُ لِیَنْزِلَ مِنْہَا مَنْ یَّنْزِلُ إِذَا احْتِیجَ إِلٰی ذٰلِکَ لِاَجْلِ کَنْسٍ أَوْ تَنْظِیفٍ، وَأَمَّا وُجُودُ الْکَوَّۃِ فِي حَیَاۃِ عَائِشَۃَ؛ فَکَذِبٌ بَیِّنٌ ۔
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو بارش کے لیے قبرنبوی پر سے کھڑکی کھولنے کی روایت مروی ہے،وہ صحیح نہیں ۔اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے۔ اس کے خلاف ِواقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات ِمبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔وہ حجرہ تو اسی طرح تھا،جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھاکہ اس کا بعض حصہ چھت والا اور بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری(522) ومسلم(611) میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز ادا فرماتے، تو ابھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور ابھی تک سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد ِنبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔(پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر حجرہ عائشہ ،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جا سکے۔جہاں تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات ِمبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی بات ہے تو یہ واضح طور پر جھوٹ ہے۔‘‘
(الردّ علی البِکري، ص 68)