کتاب: تبرکات - صفحہ 213
عُلِمَ أَنَّ سَمَاعَہُمْ عَنْہُ کَانَ قَبْلَ تَغَیُّرِہٖ ۔ ’’یہ آخری عمر میں سٹھیا گئے تھے، حافظہ اتنا بگڑ گیا تھا کہ انہیں کوئی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کیا بیان کر رہے ہیں ، اس لیے ان کی روایات میں بہت سے منکر روایات شامل ہو گئیں ۔ لہٰذا اگر جس کے متعلق معلوم ہو جائے کہ اس نے ان سے قبل از اختلاط سماع کیا ہے، (تواس کا سماع درست ہے)۔ ‘‘ (کتاب المَجروحین : 2/294) امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول ابو عبد الرحمن سلمی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ 2. ابو الجوزاء کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں ۔ ٭ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَمْ یَسْمَعْ مِنْ عَائِشَۃَ وَحَدِیثُہٗ عَنْہَا مُرْسَلٌ ۔ ’’ابو الجوزاء نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں کیا، اس کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت مرسل (منقطع) ہوتی ہے۔‘‘ (التّمھید : 20/206) امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان ہے، جیسا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ (الکامل في ضُعَفاء الرّجال : 3/331) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو الجوزاء عن عائشہ کی ایک روایت کو منقطع کہا ہے۔ (التّلخیص الحَبیر : 1/559) 3. عمرو بن مالک نکری (حسن الحدیث)کی حدیث ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے ،