کتاب: تبرکات - صفحہ 211
زیارت کی اور سلام کہا، پھر سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر کھڑے ہو کر سلام کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ (فُتُوح الشّام للواقدي : 1/318) یہ بے سند روایت بھی محمد بن عمر واقدی کی گھڑنتل ہے، ایسی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور قبر نبی سے تبرک : ٭ ابو الجوزا،اوس بن عبداللہ تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے : قُحِطَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ قَحْطًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلٰی عَائِشَۃَ، فَقَالَتْ : اُنْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاجْعَلُوا مِنْہُ کِوًی إِلَی السَّمَائِ، حَتّٰی لَا یَکُونَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ، حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ ۔ ’’ ایک دفعہ اہل مدینہ سخت قحط کا شکارہوگئے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اس کیفیت کی) شکایت کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : قبر رسول کے پاس جائیں اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولیں ، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان پردہ نہ رہے، اہل مدینہ نے اسی طرح کیا، تو بہت بارش ہوئی، خوب سبزہ اُگا اور اونٹ فربہ ہو گئے یوں لگتا تھا کہ ابھی پھٹ جائیں گے، لہٰذا اس سال کا نام عام الفتق (پیٹ پھاڑنے والاسال)رکھ دیا گیا۔‘‘ (سنن الدّارمي : 1/58،ح : 93، مِشکاۃ المَصابیح : 5950) سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 1. ابو نعمان محمد بن الفضل عارم آخر عمر میں حافظے کی خرابی کا شکار ہو گئے تھے۔ امام