کتاب: تبرکات - صفحہ 208
اسے بدعت بھی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بھی اقرار کیا جا رہا ہے کہ سلف صالحین اس عمل پر کاربند نہیں تھے،لیکن پھر بھی اسے جائز کہا جا رہا ہے۔اگرشریعت میں اس کا کوئی تصور ہوتا،تو سلف صالحین اسے ضرور اپناتے۔ صحابہ کرام نے قبر نبی اور تابعین عظام نے قبور ِصحابہ کے ساتھ اور تبع تابعین اعلام نے قبور ِ تابعین کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں کیا۔
ایک کتاب میں لکھا ہے :
لَا یَمْسَحُ الْقَبْرَ وَلَا یُقَبِّلُہٗ، فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَادَۃِ النَّصَارٰی، وَلَا بَأْسَ بِتَقْبِیلِ قَبْرِ وَالِدَیْہِ ۔
’’قبرستان جانے والا قبر کو نہ چھوئے،نہ بوسہ دے،کیونکہ یہ نصاریٰ کی عادت ہے، البتہ اپنے والدین کی قبر کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘
(فتاویٰ عالمگیری : 5/351)
قبروں کو بوسہ دینا جب نصاریٰ کی عادت ہے، تو یہ عادت والدین کی قبر پر کیسے سند ِجواز حاصل کر لے گی؟
صحابہ کرام اور قبر رسول سے تبرک :
بعض الناس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں ، ان کے دلائل کا انتہائی مختصر اور جامع تبصرہ پیش خدمت ہے:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور قبر نبوی سے تبرک :
1. جب سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے خط پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لئے شہر سے باہر نکلے کو کہا، تو سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سب سے