کتاب: تبرکات - صفحہ 206
طواف کرتے ہیں ، اور تبرک کی نیت سے اس کو چھوتے ہیں ،بوسہ دیتے ہیں ، اس پر اپنے رومال اور کپڑے ڈالتے ہیں ۔یہ سارے کام بدعت ہیں ،کیونکہ برکت تو صرف اور صرف آپ علیہ السلام کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔دور ِجاہلیت میں بتوں کی عبادت کا سبب یہی چیزیں بنی تھیں ۔ ‘‘
(المَدخل : 1/263)
٭ علامہ احمد ونشریسی(914ھ)لکھتے ہیں :
مِنْھَا تَقْبِیلُ قَبْرِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ أَوِ الْعَالِمِ، فِإِنَّ ھٰذَا کُلَّہٗ بِدْعَۃٌ ۔
’’ان کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی نیک شخص یا عالم کی قبر کو چوما جائے، یہ سب کام بدعت ہیں ۔‘‘
(المِعیار المعرب : 2/490)
٭ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ (1231ھ) کہتے ہیں :
لَا یَمَسُّ الْقَبْرَ، وَلَا یُقَبِّلُہٗ، فَإِنَّہٗ مِنْ عَادَۃِ أَہْلِ الْکِتَابِ ۔
’’(قبروں کی زیارت کرنے والا)نہ قبر کو چھوئے اور نہ بوسہ دے،کیونکہ یہ یہود و نصاریٰ کا وطیرہ ہے۔‘‘
(حاشیۃ الطّحطاوي علی مَراقي الفلاح : 620)
٭ علامہ،عبد الرؤف،مناوی رحمہ اللہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’فَزُورُوا الْقُبُورَ‘، أَي بِشَرْطِ أَنْ لَّا یَقْتَرِنَ بِذٰلِکَ تَمَسُّحٌ بِالْقَبْرِ، أَوْ تَقْبِیلٌ، أَوْ سُجُودٌ عَلَیْہِ، أَوْ نَحْوُ ذٰلِکَ، فَإِنَّہٗ کَمَا قَالَ السُّبْکِيُّ : بِدْعَۃٌ مُّنْکَرَۃٌ، إِنَّمَا یَفْعَلُہَا الْجُہَّالُ ۔
’’تم قبروں کی زیارت کرو،یعنی اس شرط پر کہ زیارت کے ساتھ قبر کو چھونے یا چومنے یا اس پر سجدہ وغیرہ کرنے کا ارتکاب نہ کیا جائے۔کیونکہ یہ بقول علامہ