کتاب: تبرکات - صفحہ 205
٭ شیخ موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
اِتَّفَقَ السَّلَفُ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَسْتَلِمُ قَبْرًا مِّنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ وَغَیْرِہِمْ، وَلَا یَتَمَسَّحُ بِہٖ، وَلَا یُسْتَحَبُّ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، وَلَا قَصْدُہٗ لِلدُّعَائِ عِنْدَہٗ، أَوْ بِہٖ، لِأَنَّ ہٰذِہِ الْـاُمُورَ کَانَتْ مِنْ أَسْبَابِ الشِّرْکِ وَعِبَادَۃِ الْـأَوْثَانِ ۔
’’سلف صالحین کا اس پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیائے کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے ،نہ ان کو (تبرک کی نیت سے)چھونا۔ قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دُعا کرنامستحسن نہیں ۔یہ سب کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں ۔‘‘
(مَجموع الفتاوٰی : 27/31)
٭ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (737ھ)قبرنبوی کے بارے میں فرماتے ہیں :
تَرٰی مَنْ لَّا عِلْمَ عِنْدَہٗ یَطُوفُ بِالْقَبْرِ الشَّرِیفِ، کَمَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ الْحَرَامِ، وَیَتَمَسَّحُ بِہٖ وَیُقَبِّلُہٗ، وَیُلْقُونَ عَلَیْہِ مَنَادِیلَہُمْ وَثِیَابَہُمْ، یَقْصِدُونَ بِہِ التَّبَرُّکَ، وَذٰلِکَ کُلُّہٗ مِنَ الْبِدَعِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ إِنَّمَا یَکُونُ بِالِاتِّبَاعِ لَہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَمَا کَانَ سَبَبُ عِبَادَۃِ الْجَاہِلِیَّۃِ لِلْـاَصْنَامِ؛ إِلَّا مِنْ ہٰذَا الْبَابِ ۔
’’آپ جاہلوں کو دیکھیں گے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا کعبہ کی طرح