کتاب: تبرکات - صفحہ 203
ممکن ہے؟‘‘ (الإیضاح في مَناسک الحجّ والعمرۃ، ص 456) ٭ شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)فرماتے ہیں : أَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ أَوِ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، أَوْ قَصْدُہٗ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہٗ، مُعْتَقِدًا أَنَّ الدُّعَائَ ہُنَاکَ أَفْضَلُ مِنَ الدُّعَائِ فِي غَیْرِہٖ، أَوِ النَّذْرُ لَہٗ وَنَحْوُ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ ہٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ ہُوَ مِمَّا اُحْدِثَ مِنَ الْبِدَعِ الْقَبِیحَۃِ الَّتِي ہِيَ مِنْ شُعَبِ الشِّرْکِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ ۔ ’’قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانا،اس کے پاس نماز پڑھنا،دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا،یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا کرنا عام جگہوں پر دُعا کرنے سے افضل ہے اور قبر پر نذر ونیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں ، جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں ،جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں ۔ واللہ اعلم واحکم۔‘‘ (مَجموع الفتاوٰی : 24/321) ٭ نیز فرماتے ہیں : أَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ، اَيَّ قَبْرٍ کَانَ، وَتَقْبِیلُہٗ وَتَمْرِیغُ الْخَدِّ عَلَیْہِ، فَمَنْہِيٌّ عَنْہُ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ، وَلَمْ یَفْعَلْ ہٰذَا أَحَدٌ مِّنْ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا، بَلْ ہٰذَا مِنَ الشِّرْکِ،