کتاب: تبرکات - صفحہ 202
بِبَالِہٖ أَنَّ الْمَسْحَ بِالْیَدِ وَنَحْوِہٖ أَبْلَغُ فِي الْبَرَکَۃِ، فَہُوَ مِنْ جَہَالَتِہٖ وَغَفْلَتِہٖ، لِأَنَّ الْبَرَکَۃَ إِنَّمَا ہِيَ فِیمَا وَافَقَ الشَّرْعَ وَأَقْوَالَ الْعُلَمَائِ، وَکَیْفَ یُبْتَغَی الْفَضْلُ فِي مُخَالَفَۃِ الصَّوَابِ ؟ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا جائز نہیں ۔اسی طرح قبر مبارک کی دیوار سے اپنا پیٹ اور اپنی پشت چمٹانا بھی مکروہ ہے،علامہ حلیمی وغیرہ نے یہ بات فرمائی ہے۔ قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانااور اسے بوسہ دینا بھی مکروہ عمل ہے۔قبر مبارک کا اصل ادب تو یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ کے پاس حاضر ہونے والے کے لیے ادب دور رہنا ہی تھا۔یہی بات درست ہے اور علماء ِ کرام نے اسی بات کی صراحت کی ہے اور اس پر اتفاق بھی کیا ہے۔کوئی مسلمان اس بات سے دھوکا نہ کھا جائے کہ عام لوگ ان ہدایات کے برعکس عمل کرتے ہیں ،کیونکہ اقتدا تو علماءِ کرام کے (اتفاقی)اقوال کی ہوتی ہے ،نہ کہ عوام کی بدعات اور جہالتوں کی۔سید جلیل،ابوعلی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے:راہِ ہدایت کی پیروی کرو،اس راہ پر چلنے والوں کی قلت نقصان دہ نہیں ۔گمراہیوں سے بچواور گمراہوں کی کثرت ِافراد سے دھوکا نہ کھاؤ(ہم اس قول کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے)۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قبرمبارک کو ہاتھ لگانے اور اس طرح کے دوسرے بدعی کاموں سے زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے، وہ اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر ایسا سوچتا ہے،کیونکہ برکت تو شریعت کی موافقت اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ملتی ہے۔خلاف ِشریعت کاموں میں برکت کا حصول کیسے