کتاب: تبرکات - صفحہ 201
قبروں کو چھونا اور بوسہ دینا اہل علم کی نظر میں : قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں علماء ِاسلام کی آرا ملاحظہ ہوں : ٭ علامہ غزالی رحمہ اللہ (505ھ) قبروں کو چھونے اور انہیں بوسہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں : إِنَّہٗ عَادَۃُ النَّصَارٰی وَالْیَھُودِ ۔ ’’ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔‘‘ (إحیاء علوم الدّین : 1/244) ٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کو چومنے اور اس پر ماتھا وغیرہ ٹیکنے کے بارے میں فرماتے ہیں : لَا یَجُوزُ أَنْ یُّطَافَ بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیُکْرَہُ إِلْصَاقُ الْبَطْنِ وَالظَّہْرِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ، قَالَہُ الْحَلِیمیُّ وَغَیْرُہٗ، وَیُکْرَہُ مَسْحُہٗ بِالْیَدِ وَتَقْبِیلُہٗ، بَلِ الْـاَدَبُ أَنْ یَّبْعُدَ مِنْہُ کَمَا یَبْعُدُ مِنْہُ لَوْ حَضَرَ فِي حَیَاتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ہٰذَا ہُوَ الصَّوَابُ، وَہُوَ الَّذِي قَالَہُ الْعُلَمَائُ وَأَطْبَقُوا عَلَیْہِ، وَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یَغْتَرَّ بِکَثِیرٍ مِّنَ الْعَوَامِّ فِي مُخَالَفَتِہِمْ ذٰلِکَ، فَإِنَّ الِاقْتِدَائَ وَالْعَمَلَ؛ إِنَّمَا یَکُونُ بِأَقْوَالِ الْعُلمائِ، وَلَا یُلْتَفَتُ إِلٰی مُحْدَثَاتِ الْعَوَّامِ وَجَہَالَاتِہِمْ، وَلَقَدْ أَحْسَنَ السَّیِّدُ الْجَلِیلُ أَبُو عَلِيٍّ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ رَّحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِي قَوْلہٖ مَا مَعْنَاہُ : اِتَّبِعْ طُرُقَ الْہُدٰی وَلاَ یَضُرُّکَ قِلَّۃُ السَّالِکِینَ، وَإِیَّاکَ وَطُرُقَ الضَّلاَلَۃِ، وَلاَ تَغْتَرَّ بِکَثْرَۃِ الْہَالِکِینَ، وَمَنْ خَطَرَ