کتاب: تبرکات - صفحہ 200
بھی نقل کی ہوئی ہیں ۔
یوں یہ صورتِ حال دوباتوں سے خالی نہیں ہے ؛یا تو قبر کے پاس دعا کرنا اور اس کے وسیلے سے مانگنا دوسری جگہوں سے افضل ہے یا نہیں ۔اگر افضل ہے، تو اس کا علم اور عمل صحابہ کرام ، تابعین اورتبع تابعین سے کیسے مخفی رہا؟ کیا پھر تین افضل ادوار اس فضل عظیم سے لا علم رہے اور برے جانشینوں نے اسے ڈھونڈ لیا؟
کیونکہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ انہیں پتہ بھی چل جائے، مگر وہ اس سے صرف ِنظر کر جائیں ،حالانکہ وہ ہر نیکی بالخصوص دعا کے حریص تھے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مجبورآدمی تو ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے،اگرچہ اس میں کراہت ہی ہو؟ توکیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دعاؤں کی قبولیت کے سلسلے میں مجبور بھی ہوں اور وہ قبروں کے پاس دعا کی فضیلت جانتے ہوئے بھی اس کا قصد نہ کرتے ہوں ،یہ بات طبعاً اور شرعاً نا ممکن ہے؟
اب دوسری قسم کا تعین ہو گیاکہ ان قبروں کے پاس دعا کرنے میں فضیلت اور مشروعیت نہیں ہے،نہ خصوصی طور پر وہاں جانے کی اجازت ہے،بلکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ دعا کرنا ان خرابیوں کا سبب بنتا ہے،جو شروع کتاب میں بیان ہو چکی ہیں ۔وہاں اپنے لیے دعا مانگنے کو جائز اور افضل جاننا ایسی عبادت ہے،جس کی شرع میں اجازت نہیں ،نہ ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز رکھا اور نہ ہی اس کے حق میں کوئی دلیل نازل کی ہے۔ ‘‘
(إغاثۃ اللّھفان من مَصاید الشّیطان : 1/203۔204)
من وعن یہی عبارت علامہ برکوی رحمہ اللہ (981ھ)نے اپنی کتاب زیارۃ القبور (ص 39۔40) میں ذکر کی ہے۔