کتاب: تبرکات - صفحہ 20
مخلوق کو اطاعت الٰہی کی طرف دعوت دیتے ہیں ،ان کے لیے دُعا کرتے ہیں اور ان کے سبب اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اور وہ عذاب سے بچتے ہیں۔یہ صورت برحق اور موجود ہے۔جو سچا شخص برکت سے یہ مراد لیتا ہے،اس کی بات برحق ہے۔ رہا برکت کا غلط معنی، تو وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے،جیسے کوئی بزرگ کسی جگہ دفن ہو اور اس کے بارے میں یہ گمان کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے، اگرچہ وہ اللہ و رسول کی اطاعت بجا نہ بھی لاتے ہوں ۔یہ اعتقاد جہالت پر مبنی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اولاد ِآدم کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دفن تھے، لیکن حادثۂ حرہ کی صورت میں اہل مدینہ اس قتل و لوٹ مار اور خوف کا شکار ہوئے، جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ۔یہ سانحہ اس لیے پیش آیا کہ خلفائے راشدین کے بعد اہل مدینہ نے ایسے اعمال ایجاد کر لیے تھے، جن کی بنا پر اس حادثہ کا پیش آنا ضروری ہو گیا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان و تقویٰ کی وجہ سے اہل مدینہ کو عذاب سے بچایا ہوا تھا، کیونکہ خلفا لوگوں کو ایمان و تقویٰ کی طرف دعوت دیتے تھے۔خلفا کی اطاعت کی برکت اور خود خلفا کے عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی نصرت و تائید کرتا تھا۔ اسی طرح خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام شام میں مدفون ہیں ،اس کے باوجود نصاریٰ ان علاقوں پر تقریباً سو سال تک قابض رہے ہیں ۔ اہل شام اس دوران بہت مصیبت میں تھے۔لہٰذا جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی مرنے والی ہستی کسی زندہ شخص کو گناہ گار ہونے کے باوجود عذاب