کتاب: تبرکات - صفحہ 199
عِبَادَۃٍ لَّمْ یَشْرَعْہَا اللّٰہُ، وَلَمْ یُنَزِّلْ بِہَا سُلْطَاناً ۔
’’اس واقعہ میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام نے سیّدنا دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپا دیا تاکہ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں ۔ انہوں نے دعا اور تبرک کی خاطر قبر کو ظاہر نہیں کیا۔اگر بعد والے مشرک وہاں ہوتے،تو تلواریں لے کر ٹوٹ پڑتے،اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے،ان کی قبروں کو بت خانہ بنا لیتے،وہاں ایک قبہ بنا دیتے،اس پر مجاور بن بیٹھتے،اسے مساجد سے بھی بڑی عبادت گاہ بنا ڈالتے،کیونکہ وہ ان لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا چکے ہیں ، جو ان سے کم درجہ ہیں ۔
اگر قبروں کے پاس دعا مانگنا اور وہاں نماز پڑھنا اور فیض روحانی حاصل کرنا فضیلت والا کام یا سنت،بلکہ مباح بھی ہوتا، تو مہاجرین وانصار اس قبرپر جھنڈا گاڑ دیتے،وہاں اپنے لیے دعا کرتے اور بعدوالوں کے لیے ایک طریقہ جاری کر دیتے،لیکن وہ بعد والوں کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زیادہ جاننے والے تھے۔یہی حال تابعین عظام کا تھا کہ وہ بھی انہی کے راستے پر چلتے رہے،حالانکہ ان کے پاس مختلف شہروں میں صحابہ کرام کی بے شما ر قبریں تھیں ، لیکن انہوں نے کسی صحابی کی قبر سے فریاد نہیں کی،نہ اسے پکارا،نہ اس کے ذریعے دعا کی،نہ اس کے پاس جا کر دعاکی،نہ اس کے واسطے سے شفا طلب کی،نہ اس کے واسطے سے بارش طلب کی،نہ اس کے ذریعے سے مدد طلب کی اور یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ان کے پاس ایسی باتوں کو نقل کرنے کی استطاعت اور وافر اسباب موجود تھے،بلکہ انہوں نے اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں