کتاب: تبرکات - صفحہ 196
ان میں سے ایک میں انہیں دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں ۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور قبر کشائی نہ کر سکیں ۔ میں نے عرض کیا:وہ لوگ اس فوت شدہ سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی چارپائی کو باہر نکالنے سے بارش برسائی جاتی ہے۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال میں وہ شخص کون ہو سکتا تھا؟انہوں نے کہا:ایک آدمی تھا،جسے دانیال کہا جاتا تھا۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکے تھے؟ انہوں نے فرمایا:تین سو(300)سال سے(لگتا ہے کہ تین ہزار سال کے الفاظ تین سو سال میں تبدیل ہو گئے ہیں )۔ میں نے کہا:کیا ان کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ انہوں نے فرمایا:بس گدی سے چند بال گرے تھے،کیونکہ انبیائے کرام کے اجسام میں نہ زمین تصرف کرتی ہے، نہ درندے اسے کھاتے ہیں ۔‘‘ (السّیرۃ لابن إسحاق : 66، 67، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 1/382، وسندہٗ حسنٌ) ٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (البِدایۃ والنّھایۃ : 2/377) ان آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ، انبیائے کرام کی قبروں سے تبرک اور توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے بڑے اہتمام سے ایک نبی کی قبر کو چھپا دیا تا کہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ اس سے تبرک اور توسل حاصل کر سکیں ۔