کتاب: تبرکات - صفحہ 195
قَالَ : حَفَرْنَا بِالنَّہَارِ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ قَبْرًا مُتَفَرِّقَۃً، فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّیْلِ دَفَنَّاہُ وَسَوَّیْنَا الْقُبُورَ کُلَّہَا، لِنُعَمِّیَہٗ عَلَی النَّاسِ لَا یَنْبُشُونَہٗ، فَقُلْتُ : وَمَا تَرْجُونَ مِنْہُ؟ قَالَ : کَانَتِ السَّمَائُ إِذَا حُبِسَتْ عَلَیْہِمْ بَرَزُوا بِسَرِیرِہٖ، فَیُمْطَرُونَ، قُلْتُ : مَنْ کُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ؟ قَالَ : رَجُلٌ یُّقَالُ لَہٗ : دَانْیَالُ، فَقُلْتُ : مُذْ کَمْ وَجَدْتُمُوہُ مَاتَ؟ قَالَ : مُذْ ثَلَاثِمِائَۃِ سَنَۃٍ، فَقُلْتُ : مَا کَانَ تَغَیَّرَ شَيْئٌ؟ قَالَ : لَا، إِلَّا شُعَیْرَاتٌ مِّنْ قَفَاہُ، إِنَّ لُحُومَ الْـأَنْبِیَائِ لَا تُبْلِیہَا الْـأَرْضُ، وَلَا تَأْکُلُہَا السِّبَاعُ ۔ ’’ہم نے جب تستر شہر کو فتح کیا،تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی،جس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔اس کے سر کے پاس ایک کتاب پڑی تھی۔ہم نے وہ کتاب اٹھالی اور اسے سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا، جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔میں عربوں میں پہلا شخص تھا،جس نے اس کتاب کو پڑھا۔میں اس کتاب کو یوں پڑھ رہا تھا گویا کہ قرآن کو پڑھ رہا ہوں ۔ ابو العالیہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں :میں نے ان سے پوچھا:اس کتاب میں کیا لکھا تھا؟ انہوں نے فرمایا:اس میں امت ِمحمدیہ کی سیرت،معاملات،دین، تمہارے لہجے اور بعد کے حالات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ میں نے عرض کیا:آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا:ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ(13)قبریں کھودیں ،پھر رات کے وقت