کتاب: تبرکات - صفحہ 194
تابوت کو دفن کر دو۔صحابہ کرام کبھی ایسا نہ کرتے۔ حکمت کی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر کا علم ہمیں نہیں دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ہر قسم کے غلوّ سے بچا کر بھی رکھا گیا۔ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین اعلام کی قبروں کا ہمیں علم نہیں ، کیونکہ قبروں سے تبرک اور وسیلہ جائز نہیں ، ورنہ انبیائے کرام کی قبریں ہم پر ظاہر کر دی جاتیں ۔ 2. سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (سفر سے واپسی کے موقع پر)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کرتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لیے رحمت کی دُعا کرتے۔ (الموطأ للإمام مالک : 1/166، ح : 68، وسندہٗ صحیحٌ) 3. نافع رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَکْرَہُ مَسَّ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ’’سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘ (جزء محمّد بن عاصم، ص 106، سِیَر أعلام النُّبَلاء للذّھبي : 12/378، وسندہٗ صحیحٌ) 4. ابو العالیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ؛ وَجَدْنَا فِي بَیْتِ مَالِ الْہُرْمُزَانِ سَرِیرًا عَلَیْہِ رَجُلٌ مَیِّتٌ، عِنْدَ رَأْسِہٖ مُصْحَفٌ لَّہٗ، فَأَخَذْنَا الْمُصْحَفَ، فَحَمَلْنَاہُ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَدَعَا لَہٗ کَعْبًا، فَنَسَخَہٗ بِالْعَرَبِیَّۃِ، أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ مِّنَ الْعَرَبِ قَرَأَہٗ، قَرَأْتُہٗ مِثْلَ مَا أَقْرَأُ الْقُرْآنَ ہٰذَا، فَقُلْتُ لِأَبِي الْعَالِیَۃِ : مَا کَانَ فِیہِ؟ فَقَالَ : سِیرَتُکُمْ، وَأُمُورُکُمْ، وَدِینُکُمْ، وَلُحُونُ کَلَامِکُمْ، وَمَا ہُوَ کَائِنٌ بَعْدُ، قُلْتُ : فَمَا صَنَعْتُمْ بِالرَّجُلِ؟