کتاب: تبرکات - صفحہ 193
کَانُوا یَسْتَظْہِرُونَ وَیَسْتَمْطِرُونَ بِہٖ، فَکَتَبَ أَبُو مُوسٰی إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذٰلِکَ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ ہٰذَا نَبِيٌّ مِّنَ الْْأَنْبِیَائِ، وَالنَّارُ لَا تَأْکُلُ الْْأَنْبِیَائَ، وَالْـأَرْضُ لَا تَأْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، فَکَتَبَ أَنِ انْظُرْ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ، یَعْنِي أَصْحَابَ أَبِي مُوسٰی، فَادْفِنُوہُ فِي مَکَانٍ لَّا یَعْلَمُہٗ أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، قَالَ : فَذَہَبْتُ أَنَا وَأَبُو مُوسٰی، فَدَفَنَّاہُ ۔ ’’جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا، ان کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں ۔نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :میں اور سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما گئے اور انہیں (ایک گم نام جگہ میں )دفن کر دیا۔‘‘ (مصنّف ابن أبي شیبۃ : 13/27، وسندہٗ صحیحٌ) ٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’جید‘‘ کہا ہے۔ (البِدایۃ والنّھایۃ : 2/377) اگر نبی کی قبر سے تبرک لینا جائز ہوتا، تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کبھی یہ نہ فرماتے:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو اور وہاں اس