کتاب: تبرکات - صفحہ 19
مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ أَنْ تَطَؤھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ مبِغَیْرِ عِلْمٍ لِّیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَائُ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا﴾(الفتح : 25) (اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم انہیں پامال کر دیتے تو تمہیں ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ جاتا(تو بھی تمہیں فتح ہوجاتی مگر تاخیر)اس لئے(ہوئی)کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے۔اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو ان میں سے کافر وں کو ہم دردناک عذاب سے دوچار کرتے)۔یعنی اگر مکہ میں کفار کے درمیان کمزور مؤمن موجود نہ ہوتے،تو اللہ تعالیٰ کفار پر عذاب نازل فرماتا۔اسی طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں حکم دیتا، نماز کی اقامت کہی جاتی،پھر میں اپنے ساتھ ایسے مردوں کو لے کر ،جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوتے،ان لوگوں کی طرف چلتا جو ہمارے ساتھ نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور میں ان کے گھروں کو جلا دیتا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم (زنا کرنے والی)حاملہ عورت کو اس وقت تک رجم کرنے سے رُک گئے جب تک اس نے بچے کو نہیں جن لیا۔عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿وَجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ﴾(مریم : 31) (میں جہاں بھی ہوں ،اللہ تعالیٰ نے مجھے مبارک بنایا ہے)۔ چنانچہ اولیاء اللہ کی برکات اس اعتبار سے ہوتی ہیں کہ وہ