کتاب: تبرکات - صفحہ 184
سند ’’انقطاع‘‘کی وجہ ’’ضعیف‘‘ہے۔ ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : إِسْنَادُہٗ مُنْقَطِعٌ ۔’’اس کی سند منقطع ہے۔‘‘ (تلخیص المستدرک : 3/299) ٭ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو یَعْلٰی بِنَحْوِہٖ، وَرِجَالُہُمَا رِجَالُ الصَّحِیحِ، وَجَعْفَرٌ سَمِعَ مِنْ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ، فَلَا أَدْرِي سَمِعَ مِنْ خَالِدٍ أَمْ لَا ۔ ’’اس روایت کو امام طبرانی اور امام ابو یعلی رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔دونوں کے راوی صحیح بخاری کے ہیں ۔جعفر نے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے تو سنا ہے، مگر مجھے یہ نہیں معلوم کہ سیدنا خالد سے سنا ہے یا نہیں ؟‘‘ (مَجمع الزّوائد : 9/349) لہٰذا حافظ بوصیری رحمہ اللہ (اتّحاف الخیرۃ المہرۃ : 7/271،ح : 6832)کا اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہنا درست نہیں ۔ تنبیہ 3 : ٭ عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ سے منسوب ہے : أَوْصٰی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عِنْدَ الْمَوْتِ، فَدَعَا بِشَعْرٍ مِّنْ شَعْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَظْفَارٍ مِّنْ أَظْفَارِہٖ، وَقَالَ : إِذَا مُتُّ؛ فَخُذُوا الشَّعْرَ وَالْْأَظْفَارَ، ثُمَّ اجْعَلُوہُ فِي کَفَنِي، فَفَعَلُوا ذٰلِکَ ۔