کتاب: تبرکات - صفحہ 182
الْغَنِيُّ مُعْظَمَ أَمْوَالِہٖ فِي تَحْصِیْلِ شَيْئٍ مِّنْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، أَکُنْتَ تَعُدُّہٗ مُبَذِّرًا أَوْ سَفِیْہاً ؟ کَلاَّ ۔ ’’عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ کا یہ قول کمال محبت کا معیار ہے کہ لوگوں کے پاس تمام سونے اور چاندی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بال کو ترجیح دی جائے۔یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف پچاس سال بعد یہ تابعی امام فرما رہے ہیں ۔ اب اگر ہمارے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال،جوتے کے تسمے، ناخن یا برتن کا ٹکڑا،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرمایا کرتے تھے،صحتِ سند کے ساتھ مل جائے،تو ہم(محبت میں )اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟اور اگر کوئی امیر آدمی اس کے حصول کی خاطر کثیر زَر خرچ کر دے، تو کیا ہم اسے فضول خرچ اور بیوقوف کہیں گے؟ نہیں ! ہر گز نہیں ۔‘‘ (سِیَر أعلام النُّبَلاء : 4/42) تنبیہ 1 : ٭ ثابت بنانی رحمہ اللہ سے منسوب ہے کہ انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہٰذِہٖ شَعْرَۃٌ مِّنْ شَعْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَضَعْہَا تَحْتَ لِسَانِيْ، قَالَ : فَوَضَعْتُہَا تَحْتَ لِسَانِہٖ، فَدُفِنَ وَہِيَ تَحْتَ لِسَانِہٖ ۔ ’’یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے۔آپ اسے میری زبان کے نیچے رکھ دیجیے۔ثابت کہتے ہیں کہ میں نے وہ بال مبارک ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو جب دفن کیا گیا ،تو وہ بال ان کی زبان کے نیچے ہی تھا۔‘‘ (الإصابۃ في تمییز الصحابۃ لابن حجر : 1/127) روایت ضعیف ومنقطع ہے۔