کتاب: تبرکات - صفحہ 18
مُخَالَفَۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَہُوَ مِنْ أَحْوَالِ الْمُشْرِکِینَ وَأَہْلِ الْبِدَعِ، بَاطِلٌ لَّا یَجُوزُ اعْتِقَادُہٗ وَلَا اعْتِمَادُہٗ، وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی أَعْلَمُ ۔ ’’کسی کا یہ کہنا کہ ہم فلاں کی برکت میں ہیں یا اس کے ہمارے پاس آنے کے وقت سے ہمارے پاس برکت نازل ہونا شروع ہو گئی ہے؛یہ کلام ایک اعتبار سے درست اور ایک اعتبار سے باطل ہے۔صحیح اس طرح ہے کہ اس سے مراد یہ ہو ؛ اس نے ہماری راہنمائی کی،ہمیں دین سکھایا،ہمیں نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا،یوں اس کی پیروی و اطاعت کی برکت سے ہمیں یہ بھلائی حاصل ہو گئی ہے۔ یہ کلام درست ہے، جیسا کہ اہل مدینہ کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی اطاعت کی، تو اس عمل کی برکت سے انہیں دنیا وآخرت کی سعادت حاصل ہو گئی۔بلکہ جو شخص بھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی اطاعت کرتا ہے،اسے ایمان واطاعت کی وجہ سے دنیا و آخرت کی بے انتہا بھلائی کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت حاصل ہو گی۔اسی طرح جب یہ مراد ہو کہ کسی شخص کی دُعا و صلاح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شر کو ختم کر دیا اور ہمیں رزق و نصرت حاصل ہو گئی،تو یہ بھی درست ہے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری مدد صرف تمہارے کمزوروں کی دُعا،نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کی جاتی ہے۔کبھی اللہ تعالیٰ کفار وفجار سے عذاب اس لیے ٹال دیتا ہے کہ ان کے درمیان رہنے والے مؤمنین کو یہ عذاب نہ پہنچ جائے، جو اس کے مستحق نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی مدعا ہے : ﴿وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَائٌ