کتاب: تبرکات - صفحہ 177
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھو تو سہی۔چنانچہ میں نے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ لاٹھی کس لیے عنایت فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ قیامت کے دن میرے اور تمہارے درمیان ایک علامت ہو گی اور اس دن بہت کم لوگوں کے پاس لاٹھی ہو گی۔ سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے اسے اپنی تلوار کے ساتھ لگالیا۔ پھر وہ ہمیشہ ان کے پاس رہی اور جب ان کی وفات ہوئی، تو ان کی وصیت کے مطابق وہ ان کے کفن میں رکھ دی گئی ۔ ہم نے ان کے ساتھ اس چھڑی کو بھی دفن کر دیا۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 3/486، وسندہٗ حسنٌ) اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (982)اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (7160) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ (فتح الباري : 2/437) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا شدہ سونے سے تبرک : ٭ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھا۔ایک سست اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے مَیں سب سے پیچھے رہتا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، تودریافت فرمایا: کون؟میں نے عرض کیا:جابر بن عبداللہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا بات ہے؟میں نے عرض کیا:میں ایک سست اونٹ پر سوار ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چھڑی طلب فرمائی۔میں نے چھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں پیش کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کو مارا اور ڈانٹا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے وہ اونٹ سب سے آگے بڑھ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اونٹ کو خریدنے کی خواہش ظاہر