کتاب: تبرکات - صفحہ 176
کے وقت جب کہ وہ بھی بطن عرنہ میں اپنی عورتوں کے ساتھ تھا،جو ان کے لیے سفر کو آسان بناتی تھیں ،میں اس کے پاس پہنچ گیا۔جب میں نے اسے دیکھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ وصف اس میں پا لیا۔میں اس کی طرف چل پڑا ۔پھر میں نے سوچا کہ کہیں میرے اور اس کے درمیان بات چیت شروع ہو گئی، تو نمازِ عصر فوت نہ ہو جائے۔چنانچہ میں نے چلتے چلتے اشارہ سے رکوع اور سجدہ کر کے نماز ادا کرلی۔جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا: آپ کون ہو؟ میں نے کہا : میں عربی شخص ہوں ،جس نے آپ کے بارے اور اس شخص(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے لشکر جمع کرنے کے بارے میں سنا، تو آپ کے پاس آ گیا۔ اس نے کہا: بہت اچھا،میں اسی مقصد میں لگا ہوا ہوں ۔میں اس کے ساتھ تھوڑی دیر تک چلا اور جب اس پر قابو پا لیا، تو اس پر تلوار اٹھا لی،یہاں تک کہ اسے قتل کر ڈالا۔پھر میں وہاں سے نکلا اور اس کی عورتوں کو اس پر جھکا ہوا چھوڑ دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا : یہ چہرہ کامیاب ہو گیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اسے قتل کر آیا ہوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ نے سچ کہا ہے۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ اٹھے اور اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ وہاں سے ایک عصا لاکر مجھے دیا اور فرمایا : عبداللہ بن انیس! اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھیے گا۔ میں وہ لاٹھی لے کر نکلا، تو صحابہ کرام مجھے روک کر پوچھنے لگے:اس لاٹھی کا کیا معاملہ ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عنایت فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا کہ اسے سنبھال کر رکھوں ۔وہ کہنے لگے : تم جا کر نبی